نکاح میں تاخیر کی وجہ سے جو بے راہ روی پھیل رہی ہے اور جو بے
دینی کی فضا پھیل رہی ہے‘ اس کو ختم کیا جاسکے‘ نکاح کو شریعت کے مطابق آسان
بنا کر عام کرنے والوں کو اللہ اجر و برکت سے ضرور نوازے گا اور ایک مٹی ہوئی سنت
یعنی نکاح کو آسان کرنے پر دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نوازے گا۔
محترم
حضرت حکیم صاحب السلام علیکم ! رسالہ عبقری کا ہم پر قرض ہے کہ جب وہ ہماری اتنی
قیمتی اور گراں قدر معلومات‘ وظائف اور اصلاح کا ذریعہ ہے تو ہم بھی اپنی ٹوٹی
پھوٹی کوشش کریں گوکہ ہماری معلومات اور مطالعہ اتنا وسیع نہیں لیکن پھر بھی ادنیٰ
سی کوشش کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہوں۔ امید ہے اصلاح فرمائیں گے۔ شکریہ! ۔شادی
ایک مقدس رشتہ ہے یہ نہ صرف سماجی اور معاشرتی تعلق ہے بلکہ ایک مذہبی فریضہ اور
سنت رسولﷺ بھی ہے بلکہ دین اسلام میں نکاح اور رشتہ ازدواج ایسا رشتہ ہے جس کے
بغیر ایمان مکمل نہیں اور نکاح کو نصف ایمان کا درجہ قرار دیا گیا ہے۔ آدمی جتنا
بھی متقی و پرہیزگار ہو نکاح کے بغیر اس کا ایمان نامکمل ہے ایک جگہ رسول اللہﷺ نے
فرمایا کہ: جو نکاح سے اعراض کرے یعنی بغیر کسی وجہ کے شادی نہ کرے اس کا
میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ میرا طریقہ تو نکاح ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے مرد وزن
کی طبیعتوں میں ایک دوسرے کیلئے کشش رکھی ہے اور اسی فطری تقاضے کو شادی کے ذریعے
جائز قرار دیا ہے اور اس میں بلاوجہ تاخیر‘ اور کوتاہی‘ بے راہ روی‘ گمراہی
اور گناہ کو دعوت دینا ہے آج کے اس پرفتن دور میں انٹرنیٹ ‘میڈیا اور کیبل جیسی
لغویات نے اور زیادہ معاشرے میں مسائل پیدا کردیئے ہیں جن کی وجہ سے اور زیادہ بے
راہ روی بڑھ رہی ہے۔ شادی کو مشکل سے مشکل تر بنادیا گیا ہے‘ بے شمار رسومات کی
پابندی‘ ذات برادری کو ترجیح دینا‘ اپنے سے اونچے گھرانے کی تمنا
کرنا‘ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔ اگر لڑکے کی شادی کرنی ہے تو بھئی کافی جہیز
آئے گا‘ گویا شادی کو کاروبار کا درجہ دے دیا گیا ہے اور بیٹی کیلئے اچھے
گھرانے میں شادی کرنے کیلئے جہیز جمع کرتے کرتے اس کے بالوں میں سفیدی آجاتی ہے
اور وہ شادی کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہے جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ: جب لڑکی
جوان ہوجائے اور مناسب رشتہ آجائے تو نکاح میں جلدی کرو‘‘ اس میں حکمت یہ ہے کہ
خوامخواہ جوان لڑکی کو گھر میں بیٹھائے رکھنا بے راہ روی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر
برادری میں کوئی مناسب رشتہ نہ ہو تو برادری سے باہر رشتہ کرنے میں عار یا شرم
محسوس کرنا یا قباحت محسوس کرنا صحیح نہیں۔ بس برادری کو خوش کرنے کے چکر میں
اولاد کی زندگی خراب نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں
جہاں نوجوان اولاد ایسے ہی بے نکاحی اور غیر فطری زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کے بال
تو سفید ہوگئے مگر برادری سے باہر ان کے والدین نے رشتہ نہ کیا‘ کیا یہ اولاد
کے ساتھ خیر خواہی ہے؟ بلکہ ہمارے اسلامی معاشرے میں تو یہاں تک حکم ہے کہ بیوہ
گان کا بھی نکاح کردو‘ کیونکہ بہت سی سعادتیں نکاح ہونے سے حاصل ہوجاتی ہیں مثلاً
ایک بیوہ خاتون محرم نہ ہونے کی وجہ سے حج جیسی سعادت سے محروم تھی جب اس کا نکاح
ہوا تو حرمین شریفین کی زیارت کو چلی گئی۔ نکاح کی فضیلت‘ اہمیت‘ افادیت اپنی جگہ
مسلم ہے۔ اس لئے یہ فضیلت جلد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حدیث شریف کے مطابق
سب سے کم خرچ والا نکاح سب سے زیادہ برکت والا ہوتا ہے۔ گنجائش اور حیثیت سے بڑھ
کر خرچ کرنا بے جا رسومات اور خرافات کو اہمیت دینا غلط ہے ان سے بچ کر نکاح کرنا
باعث برکت ہے۔ شریعت نے نکاح میں اتنی آسانیاں دی ہیں کہ آج کا معاشرہ اس کا
تصور ہی نہیں کرسکتا ہم نے شریعت کی دی ہوئی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے رسم
و رواج کی پابندی‘ ذات برادری‘ جہیز جیسی لعنتیں شامل کرکے اپنے لئے مشکلات کھڑی
کرلی ہیں۔ ورنہ تو شریعت کے مطابق بس دو گواہ ہوں ایجاب و قبول ہو اور لڑکے کی
وسعت کے مطابق مہر مقرر کردیاجائے بس نکاح ہوگیا۔ مصنوعی تکلفات میں پڑ کر اس اہم
اور نیک کام میں تاخیر کرنا بے راہ روی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ
نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر فقر (غربت) کی شکایت کی۔ آپﷺ نے ارشاد
فرمایا: شادی کرلو۔ خود قرآن میں ہے: ترجمہ اگر فقر ہے تو شادی کسی برکت سے
اللہ تعالیٰ غنا نصیب فرمادے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مال و جہیز خوب ملے گا
بلکہ ذمہ داری کا احساس ہوجاتا ہے‘ آدمی کچھ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ برکت
دے دیتے ہیں۔ رزق کیلئے پریشان نہیں ہونا چاہئے انسان اپنے مقدر کا کھاتا ہے۔ پڑھائی
اور نوکری کو تاخیر کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ نکاح کے ذریعے بعض سعادتیں بھی حاصل
ہوتی ہیں‘ نکاح کے ذریعے مرد و عورت باوقار بنتے ہیں۔ والدین کا ایک اہم
فریضہ ادا ہوجاتا ہے فطری تقاضے فطری طریقے پر پورے ہوتے ہیں اور بدنگاہی سے بچنے
کا بہترین علاج ہوجاتا ہے ایمان کی سلامتی اور بچائو کا بڑا ہی اہم ذریعہ ہے‘ امت
محمدیہﷺ میں بڑھوتری کی سعادت نصیب ہوتی ہے‘ نیک اولاد صدقہ جاریہ بنتی ہے یہ
تمام سعادتیں صرف نکاح جیسی عظیم نعمت کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں بغیر اس سنت کی
ادائیگی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ
معاشرے میں نکاح سے متعلق بے اعتدالیوں اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور
یہ اقدام معاشرتی طور پر اٹھایا جائے۔ مثلاً بے نکاح مرد و عورت اور ان کے والدین
غیر شرعی مطالبات اور رسومات کو ترک کرکے نکاح کو نہایت آسان بنائیں تاکہ نکاح
میں تاخیر کی وجہ سے جو بے راہ روی پھیل رہی ہے اور جو بے دینی کی فضا پھیل رہی
ہے‘ اس کو ختم کیا جاسکے‘ نکاح کو شریعت کے مطابق آسان بنا کر عام کرنے
والوں کو اللہ اجر و برکت سے ضرور نوازے گا اور ایک مٹی ہوئی سنت یعنی نکاح کو
آسان کرنے پر دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نوازے گا۔ ایک ایسے ہی نکاح کا آنکھوں
دیکھا حال پیش خدمت ہے۔ ہمارے سب سے عزیز اور چہیتے بھائی جو بہن بھائیوں میں سب
سے چھوٹے تھے والدہ کا انتقال ہوچکا تھا سب بہن بھائیوں کی شادی ہوچکی تھی‘ اب سب
کو صرف ان کی فکر تھی کہ کسی طرح ان کا بھی گھر بس جائے‘لیکن وہ شادی کرنے پر راضی
ہی نہیں ہورہے تھےکہ شادی کے بعد انسان ذمہ داریوں میں پھنس جاتا ہے اور مجھے ابھی
بہت سے (دین کیلئے) کام کرنے ہیں لیکن حضرت حکیم صاحب کے اصرار پر انتہائی
سادگی سے نکاح ہوگیا اور یہ کام اتنی جلدی اتنی آسانی‘ سادگی اور سہولت سے ہوا کہ
سب حیران رہ گئے۔ ایک مہینے کے اندر اندر بات چلی‘ تاریخ طے ہوئی اور نکاح ہوگیا۔
مسجد میں عصر کے بعد نکاح تھا‘ نہ کوئی مہندی‘ نہ مایوں‘نہ بارات‘ بس
نکاح کے بعد تین خواتین اور دو مرد جاکر دلہن کو برقعے میں گھر لے آئے‘ دلہن
نے گھر آکر وضو کیا‘ مغرب کی نماز ادا کی پھر گھر کی خواتین نے ہلکا سا تیار
کردیا۔ دولہا نے حق مہر اسی دن ادا کردیا۔ صبح دوسرے دن دوپہر کو ولیمہ سادگی اور
پروقار طریقے سے ہوا جس میں کسی قسم کی سلامی نہیں لی گئی‘ نہ ہی کسی قسم کا
جہیز وغیرہ لیا گیا۔ حضرت حکیم صاحب بھی اس نکاح میں شریک ہوئے اور ان کے بیانات
بھی ہوئے اور دعائیں و برکتیں بھی حاصل ہوئیں۔ اللہ پاک انہیں برکتوں‘ رحمتوں اور
خوشیوں سے نوازے۔ آمین!۔ لہٰذا ہمیں نکاح کو آسان اور شادی کو سادگی سے کرنے کی
کوشش کرنی چاہئے تاکہ بہت سے غریب اور شریف گھرانوں کے بچے اور بچیوں کے بھی گھر
بس سکیں۔
Post a Comment